پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
تیری محفل بھی رہی، دہر میں، آرام رہے
شمع موجود رہے، بزم میں، پیغام رہے

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے؟
جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے، خاکم بدہن ہے مجھ کو
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں؟
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں؟

کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں؟
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غمِ دوش رہوں؟