ایک مرتبہ حضرت علیؓ خلیفہ کے منصب پر فائز تھے۔ ایک یہودی شخص نے آپ پر الزام لگایا کہ ایک زرہ (لوہے کی بنی ہوئی حفاظتی چیز) جو حضرت علیؓ کے پاس تھی، وہ اس کی ہے۔ یہ معاملہ عدالت تک پہنچا، اور حضرت علیؓ قاضی شریح کے سامنے حاضر ہوئے۔
قاضی شریح نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد یہودی سے ثبوت طلب کیا، لیکن حضرت علیؓ نے بھی اپنی بات کے حق میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا کیونکہ آپ کے اصول کے مطابق عدل ہر حال میں مقدم تھا۔ قاضی نے شریعت کے مطابق فیصلہ دیا کہ زرہ یہودی کی ہے کیونکہ حضرت علیؓ کے پاس اپنے دعوے کے لیے کوئی گواہ نہیں تھا۔
یہودی شخص یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ایک خلیفہ نے انصاف کے لیے اپنی بات تسلیم کرنے
:کے بجائے قاضی کے فیصلے کو قبول کیا۔ وہ متاثر ہو کر فوراً کہنے لگا
یہ عدل اور حق پرستی کسی عام انسان کا کام نہیں، بلکہ یہ نبی کریمﷺ کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
یہودی نے اسلام قبول کر لیا اور زرہ واپس حضرت علیؓ کو پیش کی :سبق
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ انصاف ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر ہونا چاہیے، چاہے فیصلہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ جائے۔ حضرت علیؓ نے اس اصول کو اپنی زندگی میں نہ صرف اپنایا بلکہ دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کی۔