حضرت عمر اور ایک غریب عورت کا واقعہ

ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول مدینہ کے گلی کوچوں میں گشت کر رہے تھے تاکہ عوام کے حالات سے واقف رہیں۔ دورانِ گشت انہوں نے ایک خیمے سے بچوں کے رونے کی آواز سنی۔ قریب جا کر دیکھا کہ ایک عورت دیگچی میں کچھ پانی اور پتھر ڈال کر چولہے پر چڑھائے بیٹھی ہے، اور بچے بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔

حضرت عمر نے عورت سے پوچھا:
“بہن! یہ کیا کر رہی ہو؟”

عورت نے جواب دیا:
“میرے بچے بھوکے ہیں، اور ان کے دل کو بہلانے کے لیے میں نے پانی اور پتھر دیگچی میں ڈال دیے ہیں تاکہ وہ سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے اور آخرکار وہ تھک کر سو جائیں گے۔”

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر گہرا اثر ہوا۔ انہوں نے اس عورت کو یہ نہیں بتایا کہ وہ خلیفہ ہیں۔ فوراً بیت المال گئے، ایک بوری میں آٹا، کھجوریں، گھی اور دیگر کھانے پینے کا سامان رکھا اور خود اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔

حضرت عمر کے ساتھ موجود ایک خادم نے کہا:
“امیرالمؤمنین! یہ بوری مجھے دے دیجیے، میں اٹھا لیتا ہوں۔”

حضرت عمر نے جواب دیا:
“قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا؟ آج یہ بوجھ مجھے ہی اٹھانے دو۔”

حضرت عمر عورت کے خیمے میں واپس آئے اور خود اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کیا۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو عورت کے بچوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور خوشی سے کھیلنے لگے۔

عورت نے دعا دی اور کہا:
“اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ خلیفہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا!”

حضرت عمر یہ سن کر خاموش رہے اور چلے گئے۔

سبق:

یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایک لیڈر کو اپنی رعایا کا کتنا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے خود کو کتنا وقف کرنا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کردار آج کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

 

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here