ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں احمد نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ احمد بہت تجسس اور بہادری کا شوقین تھا۔ ہر روز وہ نئے ایڈونچر کی تلاش میں رہتا تھا۔ ایک دن اسے اپنی دادی کی سنائی ہوئی کہانی یاد آئی جس میں ایک “جادو کا درخت” کا ذکر تھا جو جنگل کے بیچ میں چھپا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ جو اس درخت کے پھول توڑ لیتا، اس کا ہر خواب پورا ہو جاتا تھا۔
احمد نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جادو کے درخت کو ڈھونڈے گا۔ صبح کا وقت تھا اور سورج اپنی روشنی سے جنگل کو جگا رہا تھا جب احمد نے اپنی تلاش شروع کی۔ جنگل گہرا تھا اور ہر طرف عجیب سی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ احمد کے پاس ایک پرانا نقشہ تھا جو اس کے دادا نے کبھی بنایا تھا، لیکن وہ نقشہ ادھورا تھا۔
چلتے چلتے احمد ایک ندی کے پاس پہنچا۔ وہاں ایک عجیب سا بزرگ بیٹھا تھا جو ایک چھوٹی سی لکڑی کی کشتی میں تھا۔ “بچے، اگر تم اس جنگل میں جا رہے ہو تو یاد رکھنا، ہر چیز ویسی نہیں ہوتی جیسی لگتی ہے،” بزرگ نے کہا۔ احمد نے سر ہلا کر اس بزرگ کا مشورہ یاد رکھ لیا۔
جنگل کے اندر چھپے راز آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے۔ ایک جگہ احمد نے دیکھا کہ زمین پر بہت سارے موتی بکھرے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی اس نے ان موتیوں کو اٹھانے کی کوشش کی، زمین ہلی اور اس کے نیچے سے دو آنکھیں چمکنے لگیں۔ ایک بڑا سانپ زمین سے نکل آیا! احمد نے ہمت نہیں ہاری اور ایک پتھر اٹھا کر سانپ کے سامنے پھینکا۔ سانپ کو دھوکہ دیتے ہوئے احمد وہاں سے بھاگ نکلا۔
آخرکار احمد ایک جگہ پہنچا جہاں ہوا میں مہک تھی اور آسمان میں رنگ برنگی روشنی تھی۔ وہاں ایک بڑا سا درخت تھا جو چاندنی میں چمک رہا تھا۔ یہی تھا جادو کا درخت! مگر، جیسے ہی احمد اس درخت کے قریب گیا، ایک روح جیسی شکل سامنے آئی۔ اس نے کہا، “جو اس درخت کے پھول چھوئے گا، اسے اپنا دل ثابت کرنا ہوگا۔ تمہارے اندر کا حوصلہ اور نیت ہی تمہارا امتحان ہے۔”
احمد نے اپنی زندگی کی ساری اچھائیاں اور حوصلہ دکھایا۔ روح خوش ہوئی اور ایک پھول اس کے سامنے گرا دیا۔ احمد نے پھول اٹھایا اور واپس اپنے گاؤں کی طرف چل دیا۔ جب وہ واپس پہنچا، اس نے پھول کا استعمال کر کے اپنے گاؤں کے لوگوں کے خواب پورے کرنے کا فیصلہ کیا۔
احمد کے اس ایڈونچر کی کہانی گاؤں کے بچوں کے لیے ہمیشہ ایک مثال بنی رہی۔ یہ دکھاتی ہے کہ حوصلہ، اچھائی اور نیت سے ہر مشکل چیز حاصل کی جا سکتی ہے۔